💈سوال:
کیا جمعہ کی مبارکباد دینا جائز ہے؟
نام:
محمد فیضان معین الدین ثاقبی
مقام:
حیدرآباد
تاریخ: 17/09/2016
============================
📝 جواب:
جمعہ کے دن کو احادیث نبویہ میں عید سے تعبیر کیا گیا ہے.
كما جاء في الحديث عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : (إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ ، فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ ، وَإِنْ كَانَ طِيبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ ، وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ) رواه ابن ماجه (1098) وحسَّنه الألباني في "صحيح ابن ماجه" .
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنهما سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک جمعہ کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عید کا دن بنایا ہے۔ جو شخص جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے آئے اسے چاہئے کہ غسل کرے اور جسے خوشبو میسر ہو وہ خوشبو بھی لگائے اور مسواک کو اپنے لئے لازم سمجھو۔
📋 اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ یہ عید (خوشی) کا دن ہے جو ہر ہفتہ میں ایک بار آتا ہے.
غرضیکہ اس طرح مسلمانوں کی تین عید ہوجاتی ہیں۔ ایک عید الفطر دوسری عید الاضحی اور تیسری جمعہ کا دن۔ عید الفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایک دوسرے کو مبارک بادی پیش کرنا ثابت ہے۔ لیکن جمعہ کے دن مبارک بادی پیش کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتاہے، لیکن جمعہ ہفتہ کی عید ہے.
⚡اور اب رہا یہ مسئلہ کہ جمعہ کی مبارک باد دینا حدیث سے ثابت نہیں ہے یہ نئی چیز ہے جو پہلے نہ تهی اس لئے یہ بدعت ہے؟
📋 اس لئے جاننا ضروری ہے کہ ہر بدعت بری نہیں ہوتی بدعت اچھی بھی ہوتی ہے۔ اچھی بدعت اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ جو چیزیں حرام یا منع ہیں ان کے بارے میں قرآن وحدیث میں ممانعت کے احکام موجود ہیں۔ جس کی بنا پر فقہاء کرام نے اصول وقواعد وضع کر لیے ہیں کہ آئندہ جو بھی نئی چیز آئے گی اس کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں کیا طریقہ اپنایا جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے چند عناصر ایسے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو اسلام سے خارج کرنے کے لیے شرک اور بدعت کی مشینیں چلا رکھی ہیں۔ یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کہ فلاں کام سب سے پہلے کس صحابی نے کیا؟ کس نبی نے کیا؟ یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا یا نہیں کیا؟ تم کیوں کرتے ہو؟ پھر تو بہت سے کام ہیں جو اس وقت نہیں کیے جاتے تھے جو آج ہم کرتے ہیں مثلا موبائل سب سے پہلے کس صحابی نے استعمال کیا؟ کیا حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے موٹر سائیکل، کار، ٹرین یا بس میں سفر کیا؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مسجدیں ایسی تھیں جس طرح آج ہیں؟ اس طرح بہت سے سوالات اٹھتے ہیں لیکن ان سب کا جواب یہی ہے کہ قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق ہر نئے کام کو پرکھا جائے گا اگر کوئی ممانعت نہ ہو تو ہر نئی سے نئی چیز کو قبول کیا جائے گا۔ اسی میں مسلمانوں کی بقا ہے اور یہی شرعی طریقہ ہے۔ اس لیے ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے نہ کہ چند نام نہاد ملاؤں کے گندے خیالات کے مطابق گزارنی ہے۔
لہذا کسی اچھے دن، اچھے کام یا کوئی بھی اللہ تعالی کی نعمت کے حصول پر کسی کو مبارک باد کہنا کوئی برا عمل نہیں ہے۔ مبارک باد کے معانی کوئی گالی دینا نہیں ہیں یا اس کا کوئی برا مطلب نہیں ہے۔ جب یہ عمل برا نہیں ہے تو پھر لوگوں کو منع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جس کی طبعیت اللہ تعالی کی نعمت کو برکت نہ سمجھے وہ مبارک باد نہ دے، لیکن جو اچھا کام کرے اس کو منع نہ کیا جائے۔ اللہ تعالی ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
=============================
💻 *فکرِ رضا دارالافتاء،*
✍🏼 *_حضرت مولانا گلفام رضا برکاتی سعدی_*
(مدظلہ النوراني)
موبائل: *00971-559060076*
***************************
💻 *فکر رضا فیس بوک:*
https://m.facebook.com/Fikr.E.Raza.Page/
🖥 *فکر رضا بلاگ:*
fikrerazafoundation.blogspot.com
📚 *فکر رضا مکتبہ (اسلامی کتب):*
http://alansarlibrary.blogspot.in/